Saturday, June 30, 2018

Sura: Yunus (Verse: 81-82)

Sura: Yunus (Verse: 81-82)

پھر جب انہوں نے اپنے آنچھر پھینک دیے تو موسیٰؑ نے کہا “یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے(**)، اللہ ابھی اِسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سدھرنے نہیں دیتا ﴿۸۱﴾  اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو" ﴿۸۲﴾ 
TRANSLITERATION:
fa-lammā ʾalqaw qāla mūsā mā jiʾtum bihī s-siḥru ʾinna llāha sa-yubṭiluhū ʾinna llāha lā yuṣliḥu ʿamala l-mufsidīna.
wa-yuḥiqqu llāhu l-ḥaqqa bi-kalimātihī wa-law kariha l-mujrimūna.

TRANSLATION:
And when they had cast, Moses said: That which ye have brought is magic. Lo! Allah will make it vain. Lo! Allah upholdeth not the work of mischief-makers. ﴾81﴿  And Allah will vindicate the Truth by His words, however much the guilty be averse. ﴾82﴿ 
(**)
یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھا یا تھا ، جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔

Hadith

Friday, June 29, 2018

Sura: Al - Anaam (Verse: 135)


اے محمدؐ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں،(**) عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ﴿۱۳۵﴾ 

Say (O Muhammad): O my people! Work according to your power. Lo! I too am working. Thus ye will come to know for which of us will be the happy sequel. Lo! the wrong-doers will not be successful. ﴾135﴿ 

(**)
یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو، انجام کار جو کچھ ہوگا وہ تمہارے سامنے بھی آجائے گا اور میرے سامنے بھی۔


Thursday, June 28, 2018

Sura: Yunus (Verse: 76-77)


پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے ﴿*﴾  موسیٰؑ نے کہا: “تم حق کو یہ کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادو گر فلاح نہیں پایا کرتے" ﴿**
And when the Truth from Our presence came unto them, they said: Lo! this is mere magic. ﴾76﴿ Moses said: Speak ye (so) of the Truth when it hath come unto you? Is this magic? Now magicians thrive not. ﴾77﴿ 
(*)
یعنی حضرت موسیٰ ؑ کا پیغام سُن کر وہی کچھ کہا جو کفارِ مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُن کر کہاتھا کہ”یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“۔(ملاحظہ ہو اسی سورۂ یونس کی دوسری آیت)۔
یہاں سلسلہ ٔ کلام کو نگا ہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اُسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ ٔ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے، قبو ل کیا جائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے، اوراس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازمًا اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اِس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورۂ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہُ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔” فرعون کےپا س جا کیونکہ وہ حدّی بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تُو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے ربّ کی طرف رہنمائی کروں تو تُو اس سے ڈرے“؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اورآخرکار حضرت موسیٰ کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایا ں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اُس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ۴۴ تا ۸۲۔ الزخرف، ۴۶ تا ۵۶۔ المزمل ۱۵ – ۱۶)۔

(**)

”مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو، پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔ 
اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جودو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔



Sura: Al - Anaam (Verse: 134)


تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنے والی ہے(**) اور تم خدا کو عاجز کر دینے کی طاقت نہیں رکھتے 

Surely, that which you are promised will verily come to pass, and you cannot escape (from the Punishment of Allah)


(**)
یعنی قیامت، جس کے بعد تمام اگلے پچھلے انسان ازسرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اپنے ربّ کے سامنے آخری فیصلے کے لیے پیش ہوں گے۔



Wednesday, June 27, 2018

Sura: Al - Anaam (Verse: 133)



(**)تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر و ہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی 
نسل سے اٹھایا ہے

Thy Lord is self-sufficient, full of Mercy: if it were His will, He could destroy you, and in your place appoint whom He will as your successors, even as He raised you up from the posterity of other people.(133)
(**)
تمہارا رب بے نیاز ہے. یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو۔ تم سبمل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیعِ فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا ۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر ا س کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے۔
”مہربانی اس کا شیوہ ہے“۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہُوم ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اُس صحیح طرزِ عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرزِ عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزّل کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا ربّ سخت گیر نہیں ہے، تم کو سزا دینے میں اُسے کوئِ لُطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تُلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصُور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصُور پر قصُور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو، گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پَل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہےاور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مُہلت پر مُہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دُوسری قوم کو اُٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا۔