کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں، ا نہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں، حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے(*) پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے(**)، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے(***)، عنقریب اللہ انہیں ان افترا پرداز یوں کا بدلہ دے گا ﴿۱۳۸﴾
wa-qālū hādhihī ʾanʿāmun wa-ḥarthun ḥijrun lā yaṭʿamuhā ʾillā man nashāʾu bi-zaʿmihim wa-ʾanʿāmun ḥurrimat ẓuhūruhā wa-ʾanʿāmun lā yadhkurūna sma llāhi ʿalayhā ftirāʾan ʿalayhi sa-yajzīhim bi-mā kānū yaftarūna.
TRANSLATION:
And they say, ‘These cattle and tillage are a taboo: none may eat them except whom we please,’ so they maintain, and there are cattle whose backs are forbidden and cattle over which they do not mention Allah’s Name, fabricating a lie against Him. Soon He will requite them for what they used to fabricate.
(*)
اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بعض جانوروں کے متعلق یا بعض کھیتیوں کی پیداوار کے متعلق منت مان لیتے تھے کہ یہ فلاں آستانے یا فلاں حضرت کی نیاز کے لیے مخصُوص ہیں۔ اُس نیاز کو ہر ایک نہ کھا سکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان کے ہاں ایک مفصّل ضابطہ تھا جس کی رُوسے مختلف نیازوں کو مختلف قسم کے مخصُوص لوگ ہی کھا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہ صرف مشرکانہ افعال میں شمار کرتا ہے، بلکہ اس پہلو پر بھی تنبیہ فرماتا ہے کہ یہ ضابطہ ان کا خود ساختہ ہے۔ یعنی جس خدا کے رزق میں سے وہ یہ منتیں مانتے اور نیازیں کرتے ہیں اس نے نہ ان منتوں اور نیازوں کا حکم دیا ہے اور نہ ان کے کھانے کے متعلق یہ پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ سب کچھ ان خود سر اور باغی بندوں نے اپنے اختیار سے خود ہی تصنیف کر لیا ہے۔
(**)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں بعض مخصوص منتوں اور نذروں کے جانور ایسے ہوتے تھے جن پر اخدا کا نام لینا جائز نہ سمجھا جاتا تھا۔ ان پر سوار ہو کر حج کرنا ممنوع تھا ، کیونکہ حج کے لیے لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہنا پڑتا تھا ۔ اسی طرح ان کا دودھ دوہتے وقت، یا ان پر سوار ہونے کی حالت میں ، یا ان کو ذبح کرتے ہوئے ، یا ان کو کھانے کے وقت اہتمام کیا جاتا تھا کہ خدا کا نام زبان پر نہ آئے۔
(***)
یعنی قاعدے خدا کے مقرر کیے ہوئے نہیں ہیں، مگر وہ ان کی پابندی یہی سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں کہ انھیں خدا نے مقرر کیا ہے ، اور ایسا سمجھنے کے لیے ان کے پاس خدا کے کسی حکم کی سند نہیں ہے بلکہ صرف یہ سند ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
No comments:
Post a Comment