(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں(*) کے سوا کسی نے نہ مانا(**)، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں(***) ﴿۸۳﴾ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو(****)" ﴿۸۴﴾
TRANSLITERATION:
fa-mā ʾāmana li-mūsā ʾillā dhurriyyatun min qawmihī ʿalā khawfin min firʿawna wa-malaʾihim ʾan yaftinahum wa-ʾinna firʿawna la-ʿālin fī l-ʾarḍi wa-ʾinnahū la-mina l-musrifīna.
wa-qāla mūsā yā-qawmi ʾin kuntum ʾāmantum bi-llāhi fa-ʿalayhi tawakkalū ʾin kuntum muslimīna.
TRANSLATION:
But none trusted Moses, save some scions of his people, (and they were) in fear of Pharaoh and their chiefs, that he would persecute them. Lo! Pharaoh was verily a tyrant in the land, and lo! he verily was of the wanton. ﴾83﴿ And Moses said: O my people! If ye have believed in Allah then put trust in Him, if ye have indeed surrendered (unto Him)! ﴾84﴿
(*)
متن میں لفظ ذُرِّ یَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ ”نوجوان“ کیا ہے۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ اُن کو خطرات سے پُر نظر آرہا تھا، بلکہ وہ اُلٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ کے قریب نہ جاؤ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤگے۔
یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سےبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کی نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقتِ اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالبؓ، جعفر ؓ طیّار، زبیرؓ، سعد بن ؓ ابی وقاص، مُصعَبؓ بن عُمَیر، عبداللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبول ِ اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن ؓ بن عوف، بلالؓ، صُہَیب ؓ کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ، زید بن حارثہؓ، عثمان بن عفانؓ اور عمر فاروقؓ ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثؓ مُطَّلبی ۔ اور غالبًا پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسرؓ۔
(**)
متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو ہوا کہ شاید بی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداءً ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے ، یعنی کسی کی بات مانن اور اس کے کہے پر چلنا۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوتِ اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرزِ عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا ، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصًا ان کے اکابر و اشراف، حضرت موسیٰ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے اُمتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے، لیکن ایک مدّتِ دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اُس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی ، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا عَلَم لے کر خود اُٹھتے، یا جو اُٹھا تھا اُس کاساتھ دیتے۔
حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرزِ عمل کیا تھا، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے:
” جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو اُن کو موسیٰ اور ہارون ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھِنَونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے اُن کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے“۔ (خروج ۶ : ۲۰ – ۲۱)
تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے:
”ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آکر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا“۔
انہی باتوں کی طرف سورۂ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا (آیت ۱۲)۔
(***)
متن میں لفظ مُسْرِ فِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اسس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی ۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی بُرے سے بُرے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ کسی ظلم اور کسی بداخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں ۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رُک جائیں۔
(****)
ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی، اور حضرت موسیٰ ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو۔
No comments:
Post a Comment